راہ میں ناقے سے جب گرگئی چھوٹی زہراؑ
گود میں ایک ضعیفہ نے اُسے تھام لیا
سر پہ جب ہاتھ رکھا روکے سکینہؑ نے کہا
جب سے بابا سے میں بچھڑی ہوں بہت ماراگیا
میرے گالوں پہ طمانچوں کے نشاں ہیں بی بی
تم نے دیکھی ہے مرے جیسی یتیمہ کوئی
بات جب یہ سنی وہ بھی رونے لگی
پھر ضعیفہ سکینہؑ سے کہنے لگی
تم سے پہلے اک یتیمہ ایسی بھی تھی
ہاں تمہارے وطن میں ہی رہتی تھی وہ
بادشاہِ مدینہ کی بیٹی تھی وہ
باپ کے بعد اتنے مصائب پڑے
اپنے گھر میں سہارے سے چلتی تھی وہ
غم اُٹھاتی رہی خم کمر ہوگئی
نوجوانی میں ہی جو ضعیفہ ہوئی
ظالموں نے یوں بابا کا پرسہ دیا
جلتا دروازہ اُس پر گرایا گیا
در کے نیچے تھی وہ در ہٹا نا سکی
ہاتھ بھی جل گئے پہلو زخمی ہوا
لوگ چل کر یہاں سے گئے جب وہاں
پاؤں رکھ رکھ کے توڑی گئی پسلیاں
گال نیلے ہیں جیسے تمہارے ابھی
اُسکے گالوں کی رنگت بھی ایسی ہی تھی
سامنے اُسکو بیٹوں کے مارا گیا
وقت یہ نا کسی ماں پہ آئے کبھی
شاہ زادی سنو کتنی بے بس تھی وہ
گھر میں بچوں سے چہرا چھپاتی تھی جو
جسطرح تیرے کانوں سے ہے خوں رواں
کان اُسکے بھی زخمی تھے اے میری جاں
اتنی شدت سے ظالم نے مارا اُسے
ٹوٹ کر خاک پہ گر گئیں بالیاں
بیٹی بن باپ کی درد سہہ نا سکی
ہاتھ کانوں پہ رکھ کر وہ روتی رہی
پانی اُٹھ اُٹھ کے جسکو پلاتی تھی وہ
لوریا ں دے کے جسکو سلاتی تھی وہ
ہاتھ چادر میں اُس سے چھپانے لگی
ہاتھ پھیلاکے جسکو بلاتی تھی وہ
کیسےکہتی وہ ماں میرےدل میری جاں
تازیانوں سے زخمی ہیں سب اُنگلیاں
اُسکا مرنا بھی سب سے چھپایا گیا
چودہ لوگوں میں گھر سے جنازہ اُٹھا
اُسکی چالیس قبریں بنائی گئیں
بس یہ سنتے ہی بچی نے روکر کہا
اے ضعیفہ سنو میری دادی تھیں وہ
مجھکو جلدی بتاؤ کہ تم کون ہو
ہاتھ پہلو سے اپنے اُٹھاتے ہوئے
زخمی چہرے سے پردہ ہٹاتے ہوئے
اے رضا اور ذیشان رونے لگیں
یہ سکینہؑ کو زہراؑ بتاتے ہوئے
میرا ورثہ ہو تم میرا چہرا ہو تم
اب سمجھ آیا کیوں چھوٹی زہرا ہو تم
0 Comments:
Please do not enter any spam link in the comment box.